زمین ایک نظم ہے
آسماں ٹھہرا ہوا نیلا سمندر
اور زمیں سوکھا ہوا دریا
پہاڑوں پر دسمبر آ چکا ہے
نیلگوں گہرا دسمبر
ندیاں برفوں کی چاندی میں چھپی ہیں
منصفوں جیسے معزز یہ پہاڑ اور ان کے ہمسایہ شجر
مرعوب کرتے ہیں
دیہاتی راستوں کے پھول کہتے ہیں
ہمیں گاؤ
نشیبی بستیوں کی گھاس کہتی ہے
ہمیں لکھو
پھٹے کپڑوں میں مخلص لڑکیاں کہتی ہیں
ہم بھی لفظ ہیں
ہم بھی صدا کا ذائقہ ہیں
آسماں ٹھہرا ہوا نیلا سمندر
دودھ پیتا میمنہ لفظ ہے
ساری زمیں پھیلی ہوئی اک نظم ہے
اور میں کبھی بارش
کبھی سوکھا ہوا دریا
کبھی آواز مخلص لڑکیوں کی