یہ سوچ کر میں رکا تھا کہ تو پکارے گا

یہ سوچ کر میں رکا تھا کہ تو پکارے گا
کسے خبر تھی کھنڈر چار سو پکارے گا


کبھی تو شاخ‌ تعلق میں پھول آئیں گے
کبھی تو سرد بدن کو لہو پکارے گا


میں ایک پل کے لیے بھی اگر ہوا اوجھل
مرا جنون مجھے کو بہ کو پکارے گا


زمین اس کے لیے تنگ ہوتی جائے گی
خدائے عشق کو جو بے وضو پکارے گا


کسی طرح بھی اشاروں سے مطمئن نہ ہوا
شعور ذات تجھے روبرو پکارے گا