زلزلہ آٹھ اکتوبر 2005

اس روشن صبح کے دامن میں
اک سورج قہر کا چمکا تھا
اک تارا جی کا نغمہ تھا
جو وادی وادی گونجا تھا
اک پروائی تھی وحشت کی
اک فطرت کا نقارا تھا
نادیدہ تھا وہ دست اجل
جو دشت و جبل لرزاتا تھا
اور پاؤں تلے سے دھرتی کو
بے وہم و گماں سرکاتا تھا
اک کھیل رہا کچھ لمحوں کا
کچھ لمحے تھے جو آئے گئے
سب نوحے نیست کے نوحے تھے
نابود کی تال پہ گائے گئے
بستی اور بستی والے سب
ملبے کے تلے دفنائے گئے


اب جھیلنے والے جھیلیں گے
جو دکھ ہے بچھڑنے والوں کا
اک آگ فراق کی دہکی ہے
یہ رستہ ہے انگاروں کا
بس اس پر چلنا اور جلنا
مقدور ہے غم کے ماروں کا
لیکن یہ رنگ بدلتے دن
لیکن یہ بھید بھری دنیا
اسی راکھ سے خاک سے ابھرے گی
کونپل کے سمان ہری دنیا
یہ وقت عجب مداری ہے
سو کھیل تماشے لاتا ہے
اک منظر ہنسنے والا ہے
اک منظر خون رلاتا ہے
اور وہ جو سب کا والی ہے
ہر منظر دیکھے جاتا ہے