زخم جگر انہیں بھی دکھا لوں تو چین لوں

زخم جگر انہیں بھی دکھا لوں تو چین لوں
اس حوصلے کی داد بھی پا لوں تو چین لوں


کیوں کر تڑپ تڑپ کے گزاری تمام رات
یہ ماجرا انہیں بھی سنا لوں تو چین لوں


یہ تو بجا کہ فرق نہیں حسن و عشق میں
ان کو بھی ہم خیال بنا لوں تو چین لوں


صحرا نوردیوں سے تو بیزار ہوں مگر
کچھ فیض بھی جنوں سے اٹھا لوں تو چین لوں


ہر شخص کا مذاق یہاں ہے جدا جدا
محفل پہ اپنا رنگ جما لوں تو چین لوں


حاصل تو ہو سکے گا نہ کچھ کوئے عشق میں
قسمت میں ٹھوکریں جو ہیں کھا لوں تو چین لوں


وہ داد دے رہے ہیں مجھے اضطراب کی
کچھ بن چلی ہے بات بنا لوں تو چین لوں


ساحرؔ جنہوں نے مجھ کو ستایا ہے آج تک
تھوڑا سا میں بھی ان کو ستا لوں تو چین لوں