زہریلے ناخدا
اس کی جوانی ۔۔۔ زندگی اور موت کی آخری کشمکش میں مبتلا تھی۔ اسپتال میں خود کو پاکر اسے یک گونہ سکون محسوس ہوا لیکن جسم میں پھیل رہے زہر کو وہ کیسے روک پاتی۔ وہ حادثات اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے جن کی وجہ سے آج وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ وہ ایک غریب دیہاتی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ باپ کی محنت مزدوری سے گھر کا چولہا گرم رہتا تھا ۔ اس کے باپ نے اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھی تھیں، جو خزاں سے بھی بدتر تھیں ۔ وہ ایک دور افتادہ گاؤں کا باشندہ تھا جو شہر سے تقریباًدو سومیل کی دوری پر واقع تھا۔ اس دیہات میں جدید زمانے کی جدید سہولیات تو کیا زندگی کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہ تھیں ۔ نہ بجلی کا کوئی انتظام اور نہ ہی طبی سہولیات ! گاؤں میں کوئی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بستی کے بچے طلو ع آفتاب کے ساتھ ہی دور کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھائی کے لئے پیدل جاتے تھے اور غروب آفتاب کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے گھروں میں وآپس لوٹ آتے ۔الیکشن کے فریبی موسم میں بہت سارے سیاسی گدھ ان پسماندہ دیہات میں نمودار ہوتے تھے اور ان لوگوں کے مشکلات کو دور کرنے کے وعدے کرتے رہتے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد وہ صرف اپنے مشکلات کو ہی حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ اس اندھیرے میں بھی اکبر خان نے خون پسینہ ایک کرکے اپنے لڑکے جاوید کو گریجویشن تک پڑھایا اور اپنی بیٹی حسینہ کو بھی گریجویشن کرنے کے لئے شہر کے ایک کالج میں ایڈمیشن کروایا تھا۔
جب جاوید سرکاری محکمہ میں بحیثیت کلرک ملازم ہو ا تو اکبر خان نے راحت کی سانس لی۔ کچھ مہینے بڑے سکون سے گزر گئے کہ اچانک ایک دن اکبر خان کے گھروالوں کو یہ منحوس خبر ملی کہ جاوید دفتر سے لوٹتے وقت شہر میں ہوئے ایک بم دھماکے کی زد میں آکر اپنی جان کھو بیٹھا ۔ اکبرخان کے گھر کے ساتھ ساتھ سارے گاؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اکبر خان کی نئی بہار کو خزاں نے دبوچ لیا۔
دھماکے میں مار ے گئے معصوم شہریوں کے حق میں سرکار کی طرف سے ایک لاکھ روپے کے ساتھ ساتھ گھر کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دینے کا بھی اعلان ہوا۔ وقت گزرتا رہا۔ جاوید کے کیس کی فائل دوسری سینکڑوں فائلوں کی طرح سرکاری محکموں میں گرد چاٹتی رہی ۔ سرکاری دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے ایک رات جب اکبر خان مایوسی اور ناامیدی کی حالت میں گھر واپس لوٹا تو حسینہ باپ کی اندرونی حالت بھانپ گئی۔ موقع پاتے ہی وہ پوچھ بیٹھی:
’’بابا! کیا بات ہے ؟ آپ کیوں پریشان سے نظر آرہے ہیں۔ جاوید کے کیس کا کیا ہوا؟‘‘
’’بیٹی ۔۔۔ تم تو جانتی ہو کہ جاوید کی فائل کمشنر کے آفس میں پڑی ہے۔ فائل کو آگے بڑھانے کے لئے کیس کا انچارج آفیسر ریلیف کی نصف رقم ایڈوانس مانگ رہا ہے۔ بیٹی گھر میں پھوٹی کوڑی بھی موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ انصاف کی کرسیوں پر بیٹھ کر مردہ انسانوں کے گوشت کو ٹکڑوں میں کھاتے رہتے ہیں۔‘‘
حسینہ یہ سُن کر پریشان ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے آخر قانون بھی تو کوئی چیز ہے، میں کل ہی شہر چلی جاؤنگی ۔ شہر میں پریس ہے ، میڈیا ہے، N۔G۔O'sہیں ۔ وہاں میں بے بس انسانوں پر ہورہے ظلم کے بارے میں ہر جگہ اپنی آواز پہنچا سکتی ہوں۔ دوسرے دن حسینہ شہر کی جانب چل پڑی۔ شہر پہنچ کر اس نے انصا ف کو پانے کے لئے ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا ۔ایڈ یٹر کو ایک دلدوز کہانی مل گئی اور میڈیا کو سنسنی خیز نیوز۔ N۔G۔O'sکو احتجاج کرنے کے بہانے مل گئے او رسیاسی لیڈروں کو اپنی سیاست کی دکان چمکانے کے لئے ایک اور قیمتی ایٹم مل گیا۔ ایک دن منسٹر کے پرنسل سیکورٹی آفیسر کی وساطت سے حسینہ کو اس منسٹر تک اپنی آواز پہنچانے کا موقع ہاتھ آیا۔ دو تین مہینے شہر میں گزار نے کے بعد حسینہ گھر واپس لوٹ آئی ۔بوڑھے ماں باپ اس کی راہ تک رہے تھے۔ بیٹی کو دیکھ کر دونوں کے چہرے تمتما اٹھے۔ چائے وغیرہ پینے کے بعد اکبر خان نے بے قراری کے عالم میں اسے پوچھا۔
’’بیٹی۔۔۔ معاملہ کہاں تک پہنچا۔ منسٹر صاحب نے جاوید کے کیس کے بارے میں کیا کہا؟ اور تمہاری نوکری ۔۔۔!‘‘
حسینہ باپ کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
’’بابا ۔۔۔ فریبی ماحول میں بغیر معاوضہ کے کوئی کام نہیں نکلتا ہے ۔میرا آڈر تقریباََتیار ہے۔‘‘
والدین کو اس بار بیٹی کی آواز میں بڑی امید نظر آرہی تھی۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید راحت کے دن پھر سے لوٹ آئینگے ۔آخروہ دن آہی گیا جب منسٹر ہزاروں لوگوں کے جلسے میں غریبوں کا مسیحا بن کر تشدد میں مارے گئے افراد کے لواحقین کو نوکریوں کے آرڈر بانٹ رہا تھا۔ آخر پر حسینہ کی نوکری کے آرڈر کا اعلان ہوا ۔حسینہ منسٹر کے ہاتھ سے آرڈر لیتے ہوئے بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑی ۔ اسے اسپتال پہنچایا گیا۔ میڈیکل ٹریٹمنٹ کے بعدجب اسے ہوش آیاتو اس کی آنکھیں ہر چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ بیڈ کے ارد گرد ایڈ یٹر ، پولیس آفیسر ، N۔G۔O'sچلانے والے اور منسٹر سب کھڑے تھے۔ چہروں سے فریبی نقاب سرک رہے تھے۔ چہروں کے وحشتناک سائے حسینہ کی نفسیات پر اثرانداز ہورہے تھے ۔وقت کے کرب انگیزطوفان میں خوابوں کی کشتی ہچکولے کھارہی تھی۔زندگی کی پتوار ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ حسینہ سوچ رہی تھی کہ ساحل کی تمنا میں انسان جب گردآب میں پھنس جاتا ہے توہاتھ پاؤں مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔حسینہ کے سینے سے درد کی ٹیس اٹھ رہی تھیں۔چھوٹے بھائی کی روتی بلکتی آواز سے اس کی نیم مردہ آنکھیں وا ہوئیں۔بھائی کی طرف دیکھتے ہی بیٹی کی پُردرد آواز بے بس باپ کے بہتے آنسوؤں کو دلاسہ د ینے لگی:
’’بابا۔۔۔با با۔۔۔ سب مدد گار زہریلے ناخدا نکلے ۔۔۔مُنا کو انسان بنانا صرف انسان ۔۔۔!‘‘