ظفر
صبح فرغانہ میں تھی اور ہوئی رنگوں میں شام
آل تیمور کی آشفتہ سری تجھ کو سلام
لمعۂ آخر خورشید سراج الدین تھا
مقطع درد فزا غزل رنگیں تھا
وہ شہ نیک نفس نیک نسب نیک نژاد
وہ شہ نیک نظر نیک نشاں نیک نہاد
پیکر خلق و وفا خوگر اعمال حسن
خسرو فکر رسا بادشہ فہم و فطن
صاحب طرز نوی مالک انداز کہن
فخر دیں فخر زمیں فخر زماں فخر زمن
لال قلعے کا وہ صوفی وہ محبت کا امیں
جس کی مٹی سے بھی محروم ہے دلی کی زمیں
مرتبہ دان ادیبان و حکیمان وطن
قدر دان شعر اے ہمہ دان و ہمہ فن
غالبؔ و ذوقؔ کے افکار کا وہ قدر شناس
جس کو تھا مومنؔ و آزردہؔ کی عظمت کا پاس
ارض دلی نے بغاوت کا جب اعلان کیا
سرخ رو ہو گیا اولاد کو قربان کیا
جب بدیسی کی حکومت سے زمیں تنگ ہوئی
اسی قاعد کی قیادت میں بڑی جنگ ہوئی
جس کا دربار تھا اک مجمع عالی نفساں
جس جگہ کوثر و تسنیم سے دھلتی تھی زباں
ساز ہندی کی نوا نغمۂ اردو کی صدا
جس کے اشعار سے آتی ہے اخوت کی ندا
مرد درویش شرافت کا گنہ گار بھی تھا
پارسا رند بھی تھا شاعر دیندار بھی تھا
جس کو کہتے ہیں زمینوں کا شہ عرش نشاں
مشکل اصناف سخن جس کے لئے تھے آساں
نہ ہو اگرچہ ظفر مند و ظفر یاب مگر
فلک شعر پہ تابندہ ہے از نام ظفر