زباں میٹھی ہے لب ہنستے ہیں صورت بھولی بھولی ہے

زباں میٹھی ہے لب ہنستے ہیں صورت بھولی بھولی ہے
سراب حسن ہے یہ ناؤ یاں ہم نے ڈبو لی ہے


ستم گر کہہ دیا ہم نے تو کیوں تم اس قدر بگڑے
چلو جانے بھی دو یہ عاشقوں کی بولی ٹھولی ہے


الٰہی خیر ہو کیوں پوچھتے ہیں وہ پتہ میرا
قیامت راہ دکھلانے کو ان کے ساتھ ہو لی ہے


دیار عشق میں پیہم سفر آئین قدرت ہے
اجل ہے زندگی اس میں خموشی اس کی بولی ہے


پس از مدت تقاضائے محبت ہے غزل لکھی
غزل کیا ہے چمن والو یہ تو گلچیں کی جھولی ہے