ذات میں کرب ہو اور کرب کا اظہار نہ ہو

ذات میں کرب ہو اور کرب کا اظہار نہ ہو
سوچتا ہوں کہیں میرا یہی کردار نہ ہو


میرے آنگن میں کھلی دھوپ کا اسرار ہے کیا
اٹھ کے دیکھوں تو سہی وہ پس دیوار نہ ہو


جی میں آتی ہے کہ اب ایسے سفر پر نکلیں
اونٹ ہمراہ نہ ہو جیب میں دینار نہ ہو


کشتیاں کس لئے ساحل سے بندھی رہتی ہیں
ہو نہ ہو نیلے سمندر میں کوئی غار نہ ہو