زاد رہ لے کے یادوں کی تنویر میں
زاد رہ لے کے یادوں کی تنویر میں
گمشدہ راستوں کا ہوں راہگیر میں
اس سے کہہ دو کہ لے جائے آنکھیں مری
اس کی دل میں سنبھالوں گا تصویر میں
گاؤں اجڑا ہوا پھر سے آباد ہو
اک حویلی کروں ایسی تعمیر میں
کوئی بتلائے بھی کیا خطا ہے مری
کس لیے سہہ رہا ہوں یوں تعزیر میں
مجھ کو دی ہے امانت میاں قیس نے
عشق تیری بڑھاؤں گا توقیر میں
میرے اپنے ہیں شامل صف دشمناں
کیسے ارشدؔ اٹھاؤں گا شمشیر میں