اٹھا رہے ہو جو یوں اپنے آستاں سے مجھے

اٹھا رہے ہو جو یوں اپنے آستاں سے مجھے
نکال کیوں نہیں دیتے ہو داستاں سے مجھے


خبر نہیں ہے کہ میں کس گھڑی چلا جاؤں
صدائیں آنے لگیں اب تو آسماں سے مجھے


یہ جانتا ہی نہیں ہوں کہاں میں بھول آیا
وہ ایک راز جو کہنا تھا رازداں سے مجھے


نکال سکتا نہیں ہوں میں دل سے حب حسین
وراثتوں میں ملی جو کہ اپنی ماں سے مجھے


میں جانتا ہوں اگر آج تم گنوا دو گے
تلاش کرنا ہے کل تم نے پھر یہاں سے مجھے


جو زخم زخم ہوں طعنوں کے تیر کھا کھا کے
تو مار کیوں نہیں دیتے ہو اب کے جاں سے مجھے


گزر گیا ہے جو لمحہ وہ پھر نہیں آیا
ملا ہے درس یہی عمر رائیگاں سے مجھے


پہنچ تو جاؤں گا میں بھی یقیں کے ساحل پر
نکالے کوئی تو ارشدؔ پر اس گماں سے مجھے