یوں الجھ کر رہ گئی ہے تار پیراہن میں رات

یوں الجھ کر رہ گئی ہے تار پیراہن میں رات
بے دلی کے ساتھ اب اترے گی جان و تن میں رات


کھول کر بادل کے دروازے نکل آیا ہے چاند
گر پڑی ہے رقص کرتے کرتے پھر آنگن میں رات


بات کیا ہے کشتیاں کھلتی نہیں ساحل سے کیوں
خوار و آوارہ سی ہے اپنے ادھورے پن میں رات


کام اتنے ہیں کہ اب یہ سوچنا بھی ہے محال
کس کشاکش میں کٹا دن کون سی الجھن میں رات


لوٹ لے جاتے ہیں سب دھنوان دن کی روشنی
اور ٹکڑے ٹکڑے بٹ جاتی ہے ہر نردھن میں رات


کر گئیں چھڑکاؤ آنکھیں آج شاہیںؔ اس طرح
کھل اٹھیں مرجھائی کلیوں سے بھرے دامن میں رات