یوسفی صاحب کی شام شعر یاراں سے اقتباس

قدرت اللہ شہاب صاحب اپنی بیگم کے انتقال کے بعد پہلی مرتبہ لندن آئے تھے۔ وہ برنی صاحب سے ملنے آئے تو ایسا لگا کہ پچھلے دو تین برسوں میں تیزی سے بُڑھا گئے ہیں۔ بیس پچیس برس پرانا گرم سوٹ پہنے تھے، جس سے ایک ناخوشگوار بو آ رہی تھی۔ بینک کے ہیڈ آفس سے سات آٹھ میل دور مضافات میں اپنے کسی عزیز کے ہاں مقیم تھے۔ ایک دن برنی صاحب نے انہیں لنچ پر ایک بجے مدعو کیا۔ وہ سوا  ایک بجے تک نہ آئے تو ہم تینوں کو تشویش ہونے لگی۔ ڈیڑھ بجے پہنچے تو ان سے سبب تاخیر دریافت کیا گیا۔ کہنے لگے: "ٹیوب کا سفر تو پندرہ بیس منٹ کا تھا مگر وجہ تاخیر ایک نہیں، تین کارہائے خیر ہیں۔"

عناں گیر ہونے والی نیکیوں کی جو تفصیلات انہوں نے بیان کیں، وہ جہاں تک یادداشت ساتھ دیتی ہے، من وعن نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تو آپ بھی سنیے:

"ٹرین میں میرے سامنے دو لڑکیاں اور ان کے دو بوائے فرینڈز بیٹھے تھے۔ ذرا دیر بعد ایک لڑکا مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا:

 You should carry an air-freshener with you.

میں نے جواب دیا:

I'll do that. Thank you.

دو ٹیوب اسٹیشن بعد اس کی گرل فرینڈ میرے پاس آئی اور بولی:

You are a remarkable man. You didn't react when my friend insulted you without any provocation. May I know who you are?

میں نے کہا: "میں مسلمان ہوں۔ میرا مذہب اسلام یہی سکھاتا ہے۔"

اس نے کہا: Tell me more about religion

میں نے مختصراً اسلام کے بنیادی عقائد بیان کیے جن سے وہ بے حد متاثر ہوئی۔ کہنے لگی، کیا میں مسلمان ہو سکتی ہوں؟

میں نے کہا، کیوں نہیں۔ بہت آسان ہے۔

اس نے پوچھا، بھلا کیسے؟

میں نے شرلک ہومز کے لہجے میں کہا:

Elementary. Very simple.

بینک اسٹیشن آنے دو۔ وہاں اتر جاؤ تو میں تمہیں دو منٹ میں convert کر سکتا ہوں۔

چند منٹ بعد اسٹیشن آ گیا۔ میں نے وہیں پلیٹ فارم کی ایک بینچ پر اسے بٹھایا اور اس کے بوائے فرینڈ کی موجودگی میں، کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ اسلامی نام فاطمہ رکھا اور مبارک باد دی۔

اس نے پوچھا، اس نام کا مطلب کیا ہے؟

میں نے جواب دیا، یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی انتہائی نیک صاحب زادی کا نام ہے جو ایک عظیم خاتون تھیں۔

اس نے کہا، میں ایسا مقدس نام کیسے رکھ سکتی ہوں؟

I have been living in sin with this boyfriend of mine.

میں نے کہا، الله معاف کرنے والا بے حد مہربان ہے۔ تم دونوں باقاعدہ نکاح کر لو۔

اس نے پوچھا، یہ کیسے ہوتا ہے؟

میں نے پھر اسی لہجے میں کہا: Very simple اسلام بہت آسان اور پریکٹیکل مذہب ہے۔ میں تم دونوں کا نکاح پڑھا سکتا ہوں، بشرط یہ کہ تمہارا بوائے فرینڈ پہلے کلمہ گو مسلمان بن جائے۔ لڑکا فوراً تیار ہو گیا۔ میں نے اسے بھی مسلمان کیا اور باقاعدہ دونوں کا نکاح پڑھا دیا۔ سیدھا وہیں سے آ رہا ہوں۔ ہاں، یاد آیا۔ دولہا نے چلتے چلتے یہ بھی  پوچھا تھا ، "کیا ہم اپنی اسلامک میرج کو شمپین سے celebrate کر سکتے ہیں؟"

بہرحال، تاخیر سے آنے کی معذرت۔ (شہاب صاحب کا بیان ختم ہوا۔)

لنچ کے بعد برنی صاحب، شہاب صاحب کو کار پارک میں اپنی کار تک چھوڑنے گئے۔ لوٹے تو مجھ سے وہ جملہ ضبط نہ ہو سکا جو لنچ کے دوران بھی ذہن سے زبان تک آنے کے لیے بڑے زور سے کھد بدا رہا تھا:

And all this happened in just 30 minutes!

نہ جانے میں نے یہ کہنا بھی کیوں ضروری سمجھا کہ لفظ نکاح کبھی تنہا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ عقد نکاح کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ نکاح کے لغوی معنی مجامعت اور مباشرت ہیں۔

برنی صاحب نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا مگر ان کی پیشانی پر آزردگی کی شکنیں دیکھیں تو پیر بھائی اٹھ کر ٹائلٹ چلے گئے۔ میں بھی اپنا سا منہ اور اپنے سے ہی دونوں جملے لے کر شیشے کی دیواروں والے حجرے میں، جسے میں fish bowl کہتا ہوں، اپنی دانست میں روپوش ہو گیا۔

انگریزی میں میرے مختصر اور مخملیں کمنٹ کا پس منظر یہ تھا کہ کسی دانا کا قول ہے کہ فکشن نگار کو کبھی آٹو بایوگرافی یا کسی واقعہ کی روداد نہیں لکھنی چاہیے۔ وجہ یہ کہ اس کا خلاق قلم تو حاشیہ آرائی، پیوند کاری، رنگ آمیزی، فسانہ آفرینی اور اضافے کا عادی ہوتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی اپج کو دخل دراصلیت وحقیقت سے کسی طرح باز نہیں رکھ سکتا۔

میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ان کرامات کی سچائی پر یقین رکھتے تھے یا نہیں۔ تاہم یہ بالکل عیاں تھا کہ ان کے آبگینہ دوست داری کو ٹھیس لگی ہے۔

کچھ دن بعد شہاب صاحب پاکستان واپس چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد برنی صاحب نے آغا حسن عابدی صاحب سے اپنی اس تجویز کی منظوری حاصل کر لی کہ شہاب صاحب کو B.C.C.I فاؤنڈیشن کی جانب سے ساڑھے چار ہزار روپے ماہوار وظیفے کے علاوہ ایک کار مع پٹرول اور ڈرائیور ان کے اردل میں تعینات کر دی جائے۔ اس کی اطلاع شہاب صاحب کو بذریعہ خط دی گئی، جس کا ترنت جواب آیا کہ کرم گستری کا شکریہ۔ صورت احوال یہ ہے کہ سرکاری پنشن گو قلیل ہے مگر میری ضروریات قلیل تر ہیں۔ رہی کار، تو میں صرف اپنی بہن کے گھر آتا جاتا ہوں جس کے لیے کار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ قطع نظر ان مراعات کے جن سے مستفید نہیں ہو سکتا اگر B.C.C.I کو کسی کام کے سلسلے میں میری خدمات درکار ہوں تو ہمہ وقت حاضر ہوں۔ بغیر کسی مشاہرے، وظیفے یا اعزازیے کے۔

ذرا غور کیجیے۔ ہمارے ہاں ایسے کتنے لوگ ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے غیر مشروط وظیفے اور بن مانگی مراعات کو ایسی بے نیازی سے رد کر دیں۔