دف کا مارنا

مشتاق احمد یوسفی   

دف کیسے مارا جاتا ہے؟

 

گرم چائے، تازہ غزل اور تیز چُونے کے پان سے تواضع کے بعد فاروقی صاحب دِلّی کے کبابئے کی دکان پر لے جاتے اور گولے کے کباب کِھلاتے۔ پیٹ بھرنے سے پہلے آنکھیں بھر آتی تھیں۔ پہلی دفعہ دکان پر لے گئے تو دِلّی کے کلچر اور قیمہ کی باریکیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کباب کھانے کے ادب آداب اتنی تفصیل سے بتائے کہ ہم جیسے مارواڑی رانگڑ کی سمجھ میں بھی آ گیا کہ سلطنت ہاتھ سے کیسے نکلی۔

 دلی کے کبابیوں کا کیا کہنا۔ بالکل وہی تیزابی مسالے جو بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں تھے، وہی شاہی رکاب داروں کی ترکیبیں سینہ بہ سینہ چلی آتی ہیں۔ اور وہی امراض بھی معدہ بہ معدہ۔ حالانکہ اب نہ وہ تگڑی ریاستیں رہیں نہ وہ قدردان۔ کچری اور پپیتے کی ایسی لگاوٹ لگاتے ہیں کہ موٹے سے موٹا گوشت پل بھر میں سرمہ ہو جائے۔ بقول شخصے مست بجار کے یہ مسالہ لگا دیں تو وہیں کھڑا کھڑا گل کے قیمے کا ڈھیر بن جائے۔ یوں تو دنیا میں غیبت سے زیادہ زود ہضم کوئی چیز نہیں، لیکن یہ کباب بھی حلق سے اُترتے ہی جزوِ بدن ہو جاتے ہیں۔ انھیں سے معلوم ہوا کہ گولے کے کباب میں ایک حصّہ دھاگے پڑتے ہیں۔ سِیخ سے اُتار کے کڑکڑاتے گھی کا بگھار دیتے ہیں۔

"سیخ کباب میں بگھار؟ یہ کس خوشی میں؟" ہم نے پوچھا۔

"اس سے مرچوں کا دَف مر جاتا ہے۔ ساتھ بَھرت کی سُبک سی کٹوری میں گرم مصالحہ رکھ دیتے ہیں۔ پھر کبابوں میں بَکری کا بھیجا اور اَلّھڑ بچھڑے کی نلیوں کا گودا علیحدہ سے ڈالتے ہیں۔"

"یہ کیوں؟ "

"اس سے گرم مصالحہ اور جائفل جاوتری کا دف مر جاتا ہے۔ پھر بڑی پیاز کے لچّھے اور ادرک کی ہوائیاں۔ اور ان پر ہری مرچیں کتر کے ڈالتے ہیں۔ یہ میسر نہ ہوں تو محض سی سی کرنے سے بھی لذّت بڑھتی ہے۔ خمیری نان کے ساتھ کھاتے وقت برف کا پانی خوب پینا چاہیئے۔"

"کیوں؟"

"برف سے خمیری روٹی اور ہری مرچوں کا دف مرتا ہے۔ مصلح ہے۔ بعض نفاست پسند تو کبابوں پر تتیّا مرچ کی چٹنی چِھڑک کر کھاتے ہیں۔ پھر حسبِ حیثیت دہی بڑے یا قلفی فالودے کی ڈاٹ لگاتے ہیں۔"

"کیوں؟"

"اس سے چٹنی کا دَف مرتا ہے۔"

"اگر یہ سارے چونچلے فقط کسی نہ کسی کا دَف مارنے کے لئے ہیں تو چٹوروں کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ یکے بعد دیگرے دَف مارنے کے بجائے، شروع میں ہی کم مرچیں ڈالیں یا پھر زبان پہ ربڑکا دستانہ چڑھا کر کھائیں۔"

ادیب سہارنپوری نے (جو پیدائش وتوطن ہی نہیں، طبیعت کے لحاظ سے بھی دِلّی اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہوئے تھے) اس مرحلہ پر شعر کا سفید پرچم لہرا کر جنگ بندی کرائی۔ ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولے، حضرت! دنیا میں ہر بات منطق کے مطابق ہونے لگے تو خدا کی قسم زندگی اجیرن ہو جائے۔ اسی بات پر ایک ظالم کا شعر سنئے:

سپردِ خاک ہی کرنا تھا مجھ کو

تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں؟

بعدازاں اسی نکتہء راز کو پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم۔اے نے اپنے بقراطی انداز میں یوں ذہن نشین کرایا کہ جوانی دیوانی کا دَف بیوی سے مارا جاتا ہے۔ بیوی کا دَف اولاد سے مارتے ہیں۔ اور اولاد کا سائنسی تعلیم سے۔ سائنسی تعلیم کا دَف اپنے ہاں دینیات سے مارا جاتا ہے۔ ارے صاحب! دَف کا مرنا کھیل نہیں ہے، مرتے مرتے مرتا ہے۔