یہ عروج ہستی ہے یا زوال ہستی ہے
یہ عروج ہستی ہے یا زوال ہستی ہے
ان کی آرزو مہنگی اپنی موت سستی ہے
کھل چکے ہیں رندوں پر راز ہائے مے خانہ
خود نگاہ ساقی سے تشنگی برستی ہے
دور تک نہیں کوئی ساتھ دشت غربت میں
راستوں کی ویرانی اور دل کو ڈستی ہے
کچھ تو اے غم جاناں تجھ کو بھولنا ہوگا
صرف تیرا ہو رہنا اک بلند پستی ہے
اک تجھی کو چاہا تھا کیا خدائی چاہی تھی
پھر بھی کم نظر دنیا جرم دل پہ ہنستی ہے
کل انہیں کی پیشانی صبح نو جگائے گی
جن کی تیرہ بختی پر آج رات ہنستی ہے
دل مجیبؔ ایسے میں ڈوب ڈوب جاتا ہے
جب نگاہ دشمن سے دوستی برستی ہے