یہ شہر طرب دیکھ بیابان میں کیا ہے
یہ شہر طرب دیکھ بیابان میں کیا ہے
اے طائر وحشت ترے امکان میں کیا ہے
جگنو کی طرح پھرتے ہیں تارے مرے دل میں
کس سوچ میں گم ہوں یہ مرے دھیان میں کیا ہے
کیا ان پہ گزرتی ہے سنو ان کی زبانی
زخموں سے کبھی پوچھو نمک دان میں کیا ہے
انکار سے اقرار کا رشتہ ہے بھلا کیا
یہ کفر کی صورت مرے ایمان میں کیا ہے
یادوں کی گھنی چھاؤں ہے یا غم کی سیاہی
اشجار صفت صحن دل و جان میں کیا ہے