یہ نہ سوچا تھا کڑی دھوپ سے رشتہ بھی تو ہے
یہ نہ سوچا تھا کڑی دھوپ سے رشتہ بھی تو ہے
صرف دریا ہی نہیں راہ میں صحرا بھی تو ہے
داستاں گو کی ہر اک بات توجہ سے سنوں
اس حکایت میں مرے یار کا قصہ بھی تو ہے
تجھ کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھاؤں تو لگے
پھول کے ساتھ ہر اک شاخ میں کانٹا بھی تو ہے
خود ہی کھینچے تھے حصار اس نے مگر اب کی بار
مجھ سے ملنے وہ حدیں توڑ کے آیا بھی تو ہے
کشمکش میں ہوں کروں ترک تعلق کیسے
اس ستم گر پہ مرے دل کو بھروسہ بھی تو ہے
بد دعا اب مرے ہونٹوں پہ مچلتی ہی نہیں
اسی دنیا میں مری چھوٹی سی دنیا بھی تو ہے