یہ کیسا شہر کا منظر دکھائی دیتا ہے
یہ کیسا شہر کا منظر دکھائی دیتا ہے
ہر ایک سمت سمندر دکھائی دیتا ہے
سلگتی دھوپ میں اکثر دکھائی دیتا ہے
مجھے وہ شخص تو پتھر دکھائی دیتا ہے
سمجھ رہا تھا جسے اپنا غم گسار بہت
اسی کے ہاتھ میں خنجر دکھائی دیتا ہے
خدا ہی جانے کہ رہتا ہے اس میں آخر کون
مہیب دشت میں اک گھر دکھائی دیتا ہے
اسی کے نیچے رکے گا تھکا ہوا ہر شخص
یہ پیڑ ایسا تناور دکھائی دیتا ہے
اگے گی فصل محبت کی کس طرح رحمان
دلوں کا کھیت ہی بنجر دکھائی دیتا ہے