چند لمحے جو انتظار کے ہیں

چند لمحے جو انتظار کے ہیں
کرب کے اور انتشار کے ہیں
شاخ گل یوں کبھی جھلستی نہیں
یہ کرم موسم بہار کے ہیں


جو دئے ٹمٹما رہے ہیں ابھی
میرے اجڑے ہوئے دیار کے ہیں


اب کہیں کچھ دکھائی دے کیسے
سارے منظر دھویں غبار کے ہیں


کہاں جا کر سکوں تلاش کروں
ہر جگہ وقت خلفشار کے ہیں


وہ کسی کام کے نہیں ہیں عطاؔ
نام ان کے فقط شمار کے ہیں