یہ جو کام رہ گئے ہیں انہیں رکھ کے جا رہی ہوں

یہ جو کام رہ گئے ہیں انہیں رکھ کے جا رہی ہوں
مری زندگی میں تجھ سے بہت تھک کے جا رہی ہوں


یہی درد کے بسیرے یہی ہجر کے اندھیرے
یہ جو سسکیاں ہیں ساری میں تھپک کے جا رہی ہوں


فقط ایک سانس مہلت مگر امتحان اتنے
یہ جو تلخیاں تھیں تیری انہیں چکھ کے جا رہی ہوں


مری پیاس کا مقدر تو یہ تشنگی ہی ٹھہری
غم عشق کی تھی چھاگل میں چھلک کے جا رہی ہوں


جہاں اس نے مڑ کے دیکھا وہیں زندگی رکی تھی
یہ جو حیرتیں ہیں دل کی میں جھٹک کے جا رہی ہوں


تری خوشبوؤں سے مہکیں مرے خواب کے جزیرے
یہی آرزو تھی لیکن میں تھپک کے جا رہی ہوں


ترے لمس سے شناسا نہیں انگلیاں یہ میری
ترے ہجر کی زمیں پر میں سسک کے جا رہی ہوں


مری زندگی تو کہہ دے کبھی جا کے چارہ گر سے
کہ یہ خواب کا ہے مدفن میں بلک کے جا رہی ہوں


کسی آگ میں جلی تو کسی شام میں ڈھلی میں
نہیں روح تو بدن میں سو ٹھٹھک کے جا رہی ہوں