عید حیران ہے

عید مہندی کا خوشیوں کا
رنگوں کا خوشبو کا
اور کانچ کی چوڑیوں کی کھنک
میں بسی آرزوؤں کا اک نام ہے
عید انعام ہے
عید امید ہے
عید تجدید ہے
عید جیسے کوئی روشنی کی کرن
ایک وعدے کہانی فسانے کی یا
ہجر موسم میں لپٹے ہوئے وصل کے
دکھ کی تمہید ہے
عید امید ہے
ایک گھر میں تو خوشیوں کا سامان ہے
ایک گھر میں مگر دکھ کا طوفان ہے
عید حیران ہے
عید ہیرا نہیں عید موتی نہیں
عید ہنستی نہیں عید روتی نہیں
ایک آنگن کہیں کوئی ایسا بھی ہے
جس میں شہزادی صدیوں سے سوتی نہیں
شاہزادے کی جب دید ہوتی نہیں
عید کے دن بھی پھر عید ہوتی نہیں