یہ جو احباب ہیں میرے سبھی کترانے لگتے ہیں
یہ جو احباب ہیں میرے سبھی کترانے لگتے ہیں
نہ جانے اس غریبی سے یہ کیوں گھبرانے لگتے ہیں
جو سچ کہتا ہوں میں تو کیوں برا لگتا ہے لوگوں کو
ہر اک جانب سے جو پتھر مرے گھر آنے لگتے ہیں
جو قاتل ہیں وہ پھرتے ہیں شریفوں کی طرح لیکن
ستم کیوں بے گناہوں پر ستمگر ڈھانے لگتے ہیں
امیر شہر جب دیکھو پڑا ہے عیش و عشرت میں
غریبی کے مگر دن کب اسے یاد آنے لگتے ہیں
گزاری ساتھ میں جن کے خوشی کی ہر گھڑی میں نے
نہ جانے کیوں مرے محبوب اب شرمانے لگتے ہیں
برائی اس قدر دنیا میں بڑھتی جائے ہے یاسینؔ
جدھر دیکھو ادھر میخانے ہی میخانے لگتے ہیں