انسان سے انسان کو نفرت نہیں اچھی
انسان سے انسان کو نفرت نہیں اچھی
احسان جتانے کی بھی عادت نہیں اچھی
بھائی کی برائی جو کیا کرتا ہے ہر دم
ہر ایسے منافق کی محبت نہیں اچھی
ذلت کے سوا اور نہ کچھ اس کو ملے گا
مکار و گنہ گار کی صحبت نہیں اچھی
کرتا ہے امانت میں خیانت جو سراسر
ہر ایسے بشر سے کوئی نسبت نہیں اچھی
آئے نہ کبھی کام غریبوں کے تو اے دوست
انبار ہو دولت کا وہ دولت نہیں اچھی
گلشن کے سنورنے میں لہو ہم نے دیا ہے
حق دار گلستاں سے بغاوت نہیں اچھی
انصاف غریبوں کو جو منصف نہ دلائے
ہو ایسی جہاں پر وہ عدالت نہیں اچھی
یاسینؔ جو فطرت ہے بدلتی نہیں لیکن
ہے وقت بدل جو تری عادت نہیں اچھی