یہ جہان آب و گل لگتا ہے اک مایا مجھے

یہ جہان آب و گل لگتا ہے اک مایا مجھے
ہر قدم پر جستجو نے جس کی بہکایا مجھے


زندگی بھر میرے اپنوں نے دیا مجھ کو فریب
تھے جو بیگانے انہوں نے آ کے اپنایا مجھے


وعدۂ امروز-و فردا میں الجھ کر رہ گیا
زندگی بھر سبز باغ اک ایسا دکھلایا مجھے


اک معما جیسے ہو سب کے لئے میرا وجود
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے


جس کو دیکھو گردش حالات کا ہے وہ شکار
ہر کوئی جیسے نظر آتا ہو گھبرایا مجھے


اہل دنیا نے دئے ہیں اس قدر مجھ کو فریب
کرتا ہے وحشت زدہ اب اپنا ہی سایا مجھے


اس کی زلف خم بہ خم سے اب نکلنا ہے محال
غمزہ و ناز و ادا سے ایسا الجھایا مجھے


اب جہاں کوئی نہیں میرے لیے راہ فرار
میرا جذب شوق آخر کس جگہ لایا مجھے


جاؤں تو جاؤں کہاں کوئی نہیں ہے خضر راہ
عمر بھر جوش جنوں نے میرے تڑپایا مجھے


اب اڑاتا ہے مری صحرا نوردی کا مذاق
عشق کرنے کے لئے تھا جس نے اکسایا مجھے


کر دی سب اپنی متاع زندگی جس پر نثار
یہ جہان رنگ و بو ہرگز نہ راس آیا مجھے


میں سمجھتا تھا جسے اپنا رفیق زندگی
تختۂ مشق ستم اس نے ہی بنوایا مجھے


تھا مرا جو حاشیہ بردار برقیؔ اعظمی
اس نے ہی طوق غلامی آ کے پہنایا مجھے