پرواز میں جو ساتھ نہ دے آسمان پر
پرواز میں جو ساتھ نہ دے آسمان پر
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر
اب قرب و بعد میں نہ رہا کوئی فاصلہ
دنیا سمٹ کے آ گئی میرے مکان پر
میرا حریف درپئے آزار ہے مرے
مجھ کو ہدف بناتا ہے وہم و گمان پر
شہ زور سے کبھی نہیں کرتا مقابلہ
چلتا ہے اس کا زور فقط بے زبان پر
میزان عدل کو نہیں لاتا بروئے کار
کرتا ہے انحصار وہ فرضی بیان پر
یہ خوئے بے نیازی ہے مجھ کو بہت عزیز
آئے کبھی نہ حرف مری آن بان پر
جس کی نہیں ہے آج کہیں کوئی یادگار
کرتا ہے فخر وہ مرے نام و نشان پر
دہلی میں ایک شاعر گمنام کا کلام
برقیؔ ہے اب محیط زمان و مکان پر