یہ حادثہ مجھے حیران کر گیا سر شام
یہ حادثہ مجھے حیران کر گیا سر شام
جو زخم صبح ملا تھا وہ بھر گیا سر شام
ملے تھے ہم کہیں کار جہاں کے میلے میں
اسے بھی جلدی تھی اور میں بھی گھر گیا سر شام
یہ آج کس کو اچانک مرا خیال آیا
چراغ راہ میں یہ کون دھر گیا سر شام
خیال یار کی فرصت بھی اب کسے ہے نصیب
یہ پھول صبح کھلا اور بکھر گیا سر شام
تمام دن کی تھکن سے میں بجھ رہا تھا مگر
کسی کی یاد کا چہرہ نکھر گیا سر شام
شب فراق کا احوال یاد آ ہی گیا
پھر ایک تیر سا دل میں اتر گیا سر شام
یہ صبح و شام مرے اس قدر ہی میرے ہیں
کہ جی اٹھا ہوں سحر دم تو مر گیا سر شام