یقیناً ہم کو گھر اچھے لگے تھے
یقیناً ہم کو گھر اچھے لگے تھے
مکیں پہلے مگر اچھے لگے تھے
اسے رخصت کیا اور اس سے پہلے
یہی دیوار و در اچھے لگے تھے
وہ دریا ہجر کا تھا تند دریا
اداسی کے بھنور اچھے لگے تھے
ہمارے ہاتھ میں پتھر کا آنا
درختوں پر ثمر اچھے لگے تھے
صعوبت تو سفر میں لازمی تھی
مگر کچھ ہم سفر اچھے لگے تھے
وہ چہرے جن پہ روشن تھی صداقت
لہو میں تر بتر اچھے لگے تھے