یہی بہت ہے ہوا میں ابھی نشاں مرا ہے

یہی بہت ہے ہوا میں ابھی نشاں مرا ہے
دیے کی لو سے یہ اٹھتا ہوا دھواں مرا ہے


جو تیرے ساتھ کھڑے ہیں وہ تیرے ساتھ نہیں
تجھے میں کیسے بتاؤں فلاں فلاں مرا ہے


تو کند خنجر و تلوار سے ہی کاٹ مجھے
مرے عدو نہ پریشاں ہو امتحاں مرا ہے


میں جب بھی چاہوں اسے بازووں میں بھر لوں گا
وہ شخص جتنا بھی ہے مجھ سے بد گماں مرا ہے


ہوا کا خوف بندھا ہے مرے پروں سے مگر
میں مطمئن ہوں کہ پیڑ ایسا سائباں مرا ہے