وہ جو گفتگو میں شریک تھے بھلا کیسے مجھ سے بگڑ گئے

وہ جو گفتگو میں شریک تھے بھلا کیسے مجھ سے بگڑ گئے
مری عمر بھر کے مکالمے اسی ایک بات پہ اڑ گئے


وہ جو چاہتوں کے امین تھے وہ جو ہر کسی کا یقین تھے
وہ جو زندگی سے حسین تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے


جنہیں آندھیوں نے کھڑا کیا جنہیں خود ہوا نے بڑا کیا
بڑی خامشی سے گذشتہ شب وہی پیڑ جڑ سے اکھڑ گئے


تری بے رخی کے خیال سے ترے ایک حرف سوال سے
مری خواہشوں کے وہ دائرے جنہیں پھیلنا تھا سکڑ گئے


ترے جسم سے ترے اسم سے تری اک نظر کے طلسم سے
کبھی دل میں وسوسے جاگ اٹھے کبھی خواب آنکھ میں جڑ گئے


نہ وہ تازگی مرے دل میں ہے نہ وہ روشنی ہے نگاہ میں
مجھے اس نے جب سے بھلا دیا مرے خال و خد ہی بگڑ گئے