وہ تو ہے دشمن جاں داد وفا کیا دے گا

وہ تو ہے دشمن جاں داد وفا کیا دے گا
جو کبھی زہر نہ دے پایا دوا کیا دے گا


کل کہیں آج کہیں اپنا سفر نا معلوم
کوئی بے سمت ہواؤں کا پتا کیا دے گا


اس سے سر پھوڑ کے مر جاؤ تو کچھ بات بنے
زندگی یہ تمہیں پتھر کا خدا کیا دے گا


خود تمہیں جسم کی دیوار میں کھڑکی کھولو
ایک زندان ہے سانسوں کا ہوا کیا دے گا


زرد پتوں کی طرح گرتے ہیں پل پل آنسو
تیرا غم بھی مجھے اب سایہ گھنا کیا دے گا


زندگی نام ہوئی اس کے تو ڈرنا کیسا
آہؔ اب موت سے بڑھ کر وہ سزا کیا دے گا