وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا

وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا
چاک دامانی پہ میری اس کو پیار آ ہی گیا


مٹتے مٹتے مٹ گئی جان وفا کی آرزو
آتے آتے بے قراری کو قرار آ ہی گیا


چپکے چپکے مجھ پہ میری خامشی ہنستی رہی
روتے روتے جذب دل پر اختیار آ ہی گیا


کوئی وعدہ جس کا معنی آشنا ہوتا نہیں
پھر اسی وعدہ شکن پر اعتبار آ ہی گیا


یا الٰہی جذبۂ ہوش و خرد کی خیر ہو
منتظر جس کا جنوں تھا وہ دیار آ ہی گیا