غم بہار میں راہ خزاں سے گزرے ہیں
غم بہار میں راہ خزاں سے گزرے ہیں
دلوں کے قافلے ہر امتحاں سے گزرے ہیں
جنوں کی روشنی لے کر نگاہبان حیات
حدود ظلمت وہم و گماں سے گزرے ہیں
چراغ بن کے جلے ہیں رہ تمنا میں
بہار بن کے ترے گلستاں سے گزرے ہیں
وہاں نگاہ تلاطم پہنچ نہیں سکتی
ستم کشوں کے سفینے جہاں سے گزرے ہیں
مسافران حرم کو خبر نہیں اب تک
بلا کشان محبت کہاں سے گزرے ہیں
تری تلاش میں دیر و حرم کا ذکر ہی کیا
تری تلاش میں ہر آستاں سے گزرے ہیں
ہمیں تو ان کے ستم بھی گراں نہیں فاروقؔ
مزاج ناز پہ شکوے گراں سے گزرے ہیں