وہ شب فرقت میں بھی یوں مسکرائے جا رہیں ہیں
وہ شب فرقت میں بھی یوں مسکرائے جا رہیں ہیں
ہجر کے لمحے نہ کیوں ہم سے گزارے جا رہیں ہیں
اے خدا مجھ کو اجازت دے کہ اس کو چھو سکوں میں
کب سے ایسے چاند کو خالی نہارے جا رہیں ہیں
آسماں کے کینوس پر چاند باقی تھا بنانا
سو ترے چہرے سا اک چہرہ بنائے جا رہیں ہیں
نام لکھا پھر سے ہم نے ایک پنے پر تمہارا
اب وہی پنا تمہیں سے ہم چھپائے جا رہیں ہیں
عشق کی یہ روشنائی کم نہ ہو جائے کے ڈر سے
ہم چراغوں کی جگہ پر دل جلائے جا رہے ہیں
ایک وہ جو بھول سے بھی فون کرتے ہیں نہ ہم کو
اور پاگل ہم بزی نمبر ملائے جا رہے ہیں
سوچ لو آرام سے انکار کا کوئی بہانا
کون سا ہم چھوڑ کر یہ شہر بھاگے جا رہے ہیں
بے ادب کہہ کر مجھے رسوا کیا تھا یار جس نے
آج وہ ہر شعر پر تالی بجاے جا رہے ہیں
درد میں بھی عشق پر صاحب جو کہتے تم غزل ہو
لگ رہا خود سے ہی خود کو آپ مارے جا رہے ہیں