بیان درد جب کرتا ہوں میں اولیٰ و ثانی میں
بیان درد جب کرتا ہوں میں اولیٰ و ثانی میں
بہت ملتی محبت ہے مجھے پھر شعر خوانی میں
سبھی ہیں پوچھتے کے عشق کرکے کیا ملا آخر
بتاتا ہوں سکوں ملتا مجھے اس رائیگانی میں
جہاں بھر میں جسے میں ڈھونڈھتا پھرتا رہا اکثر
ملا بن بے وفا کردار وہ میری کہانی میں
سبھی اپنوں سے یاں مجھ کو چھپانا اشک پڑتا ہے
ہوئی برسات ایسی مل گئے سب اشک پانی میں
بہت ہی مسکراتا تھا کبھی محفل میں یاروں کی
نظر کس کی لگی ہے آج اس کی شادمانی میں
سخنور جب سناتے ہیں محبت ہیر رانجھا کی
تصور میں ترا کرتا ہوں ان کی ہر بیانی میں
خفا صاحب ہوں تم سے میں بس اس اک بات کو لے کر
خودی کو بیچ آئے تم نہ جانے کس گمانی میں