وہ ساعت صورت چقماق جس سے لو نکلتی ہے
وہ ساعت صورت چقماق جس سے لو نکلتی ہے
تلاش آدمی کے زاویے کیا کیا بدلتی ہے
کبھی اک لو سے ششدر ہے کبھی اک ضو سے حیراں ہے
زمیں کس انکشاف نار سے یا رب پگھلتی ہے
تغیر کی صدی ہے آتشیں خوابوں کی پیکاریں
رصد گاہوں کے آئینوں میں اک تعبیر ڈھلتی ہے
نظر کو اک افق تازہ رخی سے تیری ملتا ہے
وفا اس فاصلے کا راز پا کر خود سنبھلتی ہے
نگاہ ناز سب رمز محبت کہہ گئی آخر
خرد کی پردہ داری کیا کف افسوس ملتی ہے
لہو میں آپ جل اٹھتی ہے کوئی شمع خلوت سی
وصال انداز اس کے خواب میں جب رات ڈھلتی ہے
روایت کی قناتیں جس ہوا سے جلنے والی ہیں
سواد ایشیا میں وہ ہوا اب تیز چلتی ہے
ورق اک دھند کا تازہ تغیر جب الٹتا ہے
تراشیدہ رخ الماس سی اک لو نکلتی ہے