صورت زنجیر موج خوں میں اک آہنگ ہے

صورت زنجیر موج خوں میں اک آہنگ ہے
آگہی کی حد پہ اک خواب جنوں کی جنگ ہے


جانے کن چہروں کی لو تھی جانے کس منظر کی آگ
نیند کا ریشم دھواں ہے خواب شعلہ رنگ ہے


اک جنوں خانے میں خود کو ڈھونڈھتا ہے آدمی
خود طوافی میں بھی خود سے سینکڑوں فرسنگ ہے


کرم خوردہ کشتیاں بینائی کی ہیں تہہ نشیں
نم ہوا سے استخوانوں میں اترتا رنگ ہے


آگ کو گلزار کر دے اس دعا کا وقت ہے
ورنہ خوئے آدمیت آدمی پر تنگ ہے


بوئے گل رخصت ہوئی شاید یہ ہو ختم بہار
ٹوٹتی لے میں بکھرتی صوت شب آہنگ ہے


ایک مرکز پر ضدیں یکجا ہیں اور گردش میں ہیں
یہ زمانہ کا تغیر عالم نیرنگ ہے