یہ گھنی چھاؤں یہ ٹھنڈک یہ دل و جاں کا سکوں
یہ گھنی چھاؤں یہ ٹھنڈک یہ دل و جاں کا سکوں
میری آنکھوں پہ ترے گیسوئے پر خم تو نہیں
لذت درد وہی ہے وہی کیفیت زیست
التفات نگہ ناز ابھی کم تو نہیں
دل کے ارمان مچلتے ہی چلے جاتے ہیں
یہ سیہ رات تری کاکل برہم تو نہیں
الجھنیں شوق کی بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
آج زلفوں میں تری کوئی نیا خم تو نہیں
خود کو بھولے ہوئے دنیا سے گریزاں رہنا
یہ کہیں تیری محبت ہی کا عالم تو نہیں
ڈبڈبا آئیں مجھے دیکھ کے آنکھیں اس کی
ہائے بے درد مرے درد محرم تو نہیں
رہ گئیں جم کے یہ کس پر مری نظریں مضطرؔ
روبرو آج وہی حسن مجسم تو نہیں