وہ نظر جب ادھر نہیں ہوتی
وہ نظر جب ادھر نہیں ہوتی
روشنی میرے گھر نہیں ہوتی
ہر بیاں مستند نہیں ہوتا
ہر زباں معتبر نہیں ہوتی
عشق کی راہ میں کسی کی نظر
اپنے انجام پر نہیں ہوتی
تھک کے ہر گام بیٹھنے والو
زندگی یوں بسر نہیں ہوتی
جس دعا میں تڑپ نہ ہو دل کی
وہ رہین اثر نہیں ہوتی
عشق میں جاں سے ہاتھ دھوتے ہیں
یہ مہم یوں ہی سر نہیں ہوتی
جو سحر حاصل شب غم ہے
وہ سحر عمر بھر نہیں ہوتی
درد دل یوں عزیز ہے صابرؔ
منت چارہ گر نہیں ہوتی