جب سے گلچیں چمن پرست نہیں
جب سے گلچیں چمن پرست نہیں
بار آور کوئی درخت نہیں
ہم ہیں صدیوں سے گوش بر آواز
آج تک کوئی بازگشت نہیں
اہل گلشن پہ کیا نہیں گزری
نقش یہ کس کے دل پہ ثبت نہیں
لگ گئی لب پہ مہر خاموشی
گرچہ لہجہ مرا کرخت نہیں
چاند پر لوگ ڈالتے ہیں کمند
کہئے کیا یہ خرد کی جست نہیں
مے کدہ پر طلسم طاری ہے
بے اثر ان کی چشم مست نہیں
عہد حاضر ہے سخت پر آشوب
حوصلہ پھر بھی میرا پست نہیں
کون پوچھے گا تجھ کو اے صابرؔ
تو اگر مصلحت پرست نہیں