وہ کتنا ٹوٹ چکا ہے یہ کوئی جان نہ لے

وہ کتنا ٹوٹ چکا ہے یہ کوئی جان نہ لے
غم حیات تو اور اس کا امتحان نہ لے


نصیب ہوگی تجھے منزل مراد اک دن
کسی شجر کا کوئی بھی تو سائبان نہ لے


اسی پہ چھوڑ دے اب جو ہے کائنات کا رب
یہ تیرا کام نہیں تو کسی کی جان نہ لے


ترے عدو ہیں تری گھات میں یہاں ہر سو
تو اس نگر میں کرائے کا اب مکان نہ لے


میں اس کی بزم سے تب تک نہ اٹھوں گا تاباںؔ
مرا وہ مشورہ جب تک کہ آج مان نہ لے