وہ اک صدی کا بنائے تھا انتظام تمام

وہ اک صدی کا بنائے تھا انتظام تمام
کہ ایک پل میں ہوئی عمر نا تمام تمام


ابھی میں کر بھی نہ پایا تھا ایک جام تمام
ندا یہ آئی کہ بس ہو چکی یہ شام تمام


میں اپنی آگ میں جلتا ہوں میرا حال نہ پوچھ
مرا نفس کیا کرتا ہے میرا کام تمام


ہوا ہی ایسی چلی تھی اکھڑ گئے خیمے
نہ کر سکے تھے ابھی عرصۂ قیام تمام


خوشی ہماری بجا ہے مباح فخر ہمیں
لکھی ہے مملکت غم ہمارے نام تمام


ٹھکانے لگ گئیں افسرؔ بچی کھچی سانسیں
چلو کہ ہو ہی گیا آج یہ بھی کام تمام