وہ ہوئے ایسے مہرباں مجھ پر
وہ ہوئے ایسے مہرباں مجھ پر
بار ہونے لگا جہاں مجھ پر
کتنی شفاف زندگانی تھی
اب تو چھانے لگا دھواں مجھ پر
اس نے آ کر نہ کچھ صفائی دی
قصے ہوتے رہے بیاں مجھ پر
گل کے مانند یہ سراپا تھا
جانے کب آ گئی خزاں مجھ پر
میرے دم سے چمن میں رنگت تھی
رشک کرتی تھیں تتلیاں مجھ پر
میں جہاں سے چلی بھی جاؤں تو
کیا کرے گا کوئی فغاں مجھ پر
جب بھی اس نے سنی نہ بات مری
کتنی باتیں ہوئیں عیاں مجھ پر
اب تو نکہتؔ نہیں ہے پھولوں میں
پھر بھی اٹھتی ہیں انگلیاں مجھ پر