وہ ہنس پڑا جنوں یہ مچلنے لگی حیات
وہ ہنس پڑا جنوں یہ مچلنے لگی حیات
ہاں ہاں یہی ادا یہی انداز التفات
وہ مسکرا رہے ہیں دھندھلکوں کی اوٹ سے
یوں آزما رہی ہے مجھے تلخیٔ حیات
آئے ہیں وہ جنوں میں پشیمانیاں لئے
کیا کیا فریب دیتا ہے حسن تصورات
بخشی ہے کس نے میرے جنوں کو یہ آگہی
سمجھا رہا ہے کون مجھے رمز کائنات
کیا کچھ نہیں ملا مجھے ہوش و خرد سے دور
قدموں میں کائنات تو مٹھی میں شش جہات
پھولوں سے اب نہ ربط نہ کانٹوں سے احتیاط
زیباؔ بدل رہے ہیں بتدریج واقعات