مری آرزو کا حاصل مری زیست کا سہارا

مری آرزو کا حاصل مری زیست کا سہارا
ترا اک حسیں تبسم ترا جلوۂ خود آرا


ترے درد و غم کے صدقے تری بے رخی کے قرباں
انہیں کج ادائیوں نے مری زیست کو سنوارا


مری کشتی تمنا ہے عجیب کشمکش میں
کبھی ہے قریب منزل کبھی دور ہے کنارا


کبھی یہ خیال گزرا کہ نظر کے سامنے ہو
کبھی یہ گماں ہوا ہے کہ مجھے کہیں پکارا


جو ملے بھی ہو تو کیا ہے تمہیں پا کے ڈھونڈتے ہیں
تمہیں بے رخی مبارک ہمیں جستجو گوارا


تری شان بے نیازی مرا یہ جنون پیہم
تری یاد دے رہی ہے مرے ضبط کو سہارا


کبھی نو بہار بن کر ہو چمن چمن میں رقصاں
کبھی کوئلوں کے لب پر کبھی گل سے آشکارا


کبھی دل کو چین ملتا کبھی درد دم تو لیتا
تجھے بے قرار زیباؔ اسی آرزو نے مارا