رات گزری نہ کم ستارے ہوئے

رات گزری نہ کم ستارے ہوئے
منکشف ہم پہ ہجر سارے ہوئے


ناؤ دو لخت ہو گئی اک دن
دو مسافر تھے دو کنارے ہوئے


پھول دلدل میں کھل رہا ہے یہاں
ہم ہیں اک جسم پر اتارے ہوئے


جانے کس وقت نیند آئی ہمیں
جانے کس وقت ہم تمہارے ہوئے


مدتوں بعد کام آئے ہیں
چند لمحے کہیں گزارے ہوئے


اپنی چھت پر اداس بیٹھے ہیں
ہم پرندوں کا روپ دھارے ہوئے