وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی

وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی


حالات کا اب میں ہوں خاموش تماشائی
بھائی سے تڑپتا ہے ملنے کے لئے بھائی


تصویر تصور ہی بس ایک سہارا ہے
فرقت نے بنا ڈالا اس کی مجھے سودائی


جذبات تھے بے قابو کرتا بھی تو کیا کرتا
اس رشک گل تر کی جب یاد مجھے آئی


یادوں کے جھروکوں سے حسرت ہے اسے دیکھوں
پہلے تھا جو آنکھوں کی میری کبھی بینائی


وہ دیکھنا مڑ مڑ کر اس کا مجھے حسرت سے
باقی نہ رہی میری جب قوت گویائی


جو تار رگ جاں پر ہر وقت غزل خواں تھی
رس گھولتی ہے اب بھی کانوں میں وہ شہنائی


دزدیدہ نگاہی میں کھو جاتا تھا دل جن کی
ان جھیل سی آنکھوں کی یاد آئی ہے گہرائی


دیتا ہے کوئی دستک آ آ کے در دل پر
کاٹے نہیں کٹتی ہے برقیؔ شب تنہائی