وہ اور لوگ تھے جو راستے بدلتے رہے

وہ اور لوگ تھے جو راستے بدلتے رہے
سفر ہے شرط سو ہم نیند میں بھی چلتے رہے


پگھل رہا تھا یگوں سے وجود کا لاوا
خیال و خواب مرے پتھروں میں ڈھلتے رہے


انہیں قبول مری رہبری نہ تھی لیکن
مخالفین مرے ساتھ ساتھ چلتے رہے


جنہیں نصیب ہوا ان کو بخش دی رونق
میں جن کے ہاتھ نہ آیا وہ ہاتھ ملتے رہے


اگرچہ ذوق سفر میں کمی نہیں آئی
قدم قدم پہ مگر زاویے بدلتے رہے


ابھر جو آئے سر شام آتشیں لمحے
سفر میں برف بدن دیر تک پگھلتے رہے