وہ اپنے شہر فراغت سے کم نکلتا ہے

وہ اپنے شہر فراغت سے کم نکلتا ہے
نکل بھی آئے تو فرصت سے کم نکلتا ہے


میں خانقاہ کے باہر کھڑا ہوں مدت سے
یہاں بھی کام عقیدت سے کم نکلتا ہے


فلک کی سیر کے پیغام آتے رہتے ہیں
بدن ہی خاک کی دہشت سے کم نکلتا ہے


سنبھل سنبھل کے تو چلتا ہے وہ ستارہ بھی
تمہاری جیسی نزاکت سے کم نکلتا ہے


میں ناپتا ہوں تو ہر بار رقبۂ افلاک
مری نگاہ کی وسعت سے کم نکلتا ہے


ہمیشہ عشق کو ہی ماننی پڑی ہے ہار
ہمیشہ حسن ضرورت سے کم نکلتا ہے


یہ نفرتوں کو مٹانے کی ضد رہے باقی
مگر یہ کام محبت سے کم نکلتا ہے