وہ آ گئے ہیں بغض کا جذبہ لیے ہوئے
وہ آ گئے ہیں بغض کا جذبہ لیے ہوئے
ہم سے مصالحت کا ارادہ لیے ہوئے
ہے سامنے فقیر کے شاہوں کا ایسا حال
ثروت کھڑی ہے ہاتھ میں کاسہ لیے ہوئے
ہم ڈھونڈتے ہیں رہبر کامل کو ہند میں
حسن عمل کا قلب میں جذبہ لیے ہوئے
ہیں خشک سالیاں کہیں جانوں میں اک وبال
بارش کہیں ہے قہر کا نقشہ لیے ہوئے
مقبولیت ہو ایسی کہ تم کوچ جب کرو
ہر شخص آئے ہاتھ میں تمغہ لیے ہوئے
ہوتا گیا تبادلہ عینیؔ نگر نگر
ہر جا میں پہنچا پیار کا تحفہ لیے ہوئے