میری خواہش کا بستر سلگتا رہا

میری خواہش کا بستر سلگتا رہا
ہجر میں وقت اکثر سلگتا رہا


پھول مقتول کے ہاتھ میں دیکھ کر
دست قاتل پہ خنجر سلگتا رہا


مہرباں تھے تماشائیوں کی طرح
میرے خوابوں کا دفتر سلگتا رہا


تیز کرنوں کی زد میں تھا ہر ایک شعر
یوں تخیل کا خاور سلگتا رہا


میکدہ تھا بغیر ان کے ویران سا
یاد میں ان کی ساغر سلگتا رہا


دور ہوتی گئی اس سے عینیؔ حیا
جسم سے اس کے زیور سلگتا رہا