وقت کے ہاتھوں مجھے مجبور ہونا تھا ہوا

وقت کے ہاتھوں مجھے مجبور ہونا تھا ہوا
رشتۂ مہر و وفا کافور ہونا تھا ہوا


تلملا کر رو پڑی ہے کوشش چارہ گری
میرے دل کے زخم کو ناسور ہونا تھا ہوا


تم رہے قیدی مکاں کے یا تھے خواب ناز میں
مجھ کو دن بھر کی تھکن سے چور ہونا تھا ہوا


کھو گئے راہوں میں کتنے ہی یہاں اہل خرد
دار پر چڑھ کر جسے مشہور ہونا تھا ہوا


اس بت طناز کی آنکھوں پہ تہمت کیا لگے
میرے دل کے آئینے کو چور ہونا تھا ہوا


ہم تو اے مشتاقؔ مست ساقئ محفل رہے
جس کو صید دختر انگور ہونا تھا ہوا